اسلام
میں ائمہ وموٴذنین کا مقام ومرتبہ
اور ہماری ذمہ داریاں
اسلام اور مسلم معاشرے میں امامت ایک
معززمنصب رہاہے اوراس پر فائزرہنے والے لوگوں کوعام و خاص ہر طبقے میں عزت
واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتارہاہے۔جب دنیاکے بیشتر
خطوں میں سیاسی و سماجی اور تہذیبی و علمی
اعتبار سے مسلمانوں کاغلبہ تھااور مسلم تہذیب دنیاکی مقبول ترین
تہذیب تھی، اس وقت امام کا مرتبہ اس اعتبار سے غیر معمولی
تھاکہ وہ نہ صرف پنج وقتہ،جمعہ و عیدین اور جنازے کی نمازوں میں
مسلمانوں کے پیشواہوتے تھے؛ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لوگ اپنے روزمرہ کے مسائل
و مشکلات کے حل کے لیے بھی انہی سے رجوع کیاکرتے تھے۔ماضی
میں دین و دنیاکے کئی اہم کارنامے انجام دینے والے
بے شمار اشخاص مساجدکے منبروں سے ہی وابستہ تھے۔ اسلامی کتب
خانے کااچھاخاصاذخیرہ ائمہ کی علمی و فکری قابلیتوں
کی منہ بولتی تصویر ہے۔ ان کی اہمیت و برتری
اور فضیلت کودراصل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنے قول و عمل کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں بٹھایاتھا۔ایک
موقع پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے فرما یاکہ”امام
اس لیے بنائے گئے ہیں کہ ان کی اقتداکی جائے“۔ اس
کاایک ظاہری مطلب یہ ہے کہ نمازکے دوران اماموں کی
اقتداکرنی چاہیے اوران کے عمل کے مطابق عمل کیاجائے؛ تاکہ ہماری
نمازدرست اور مکمل ہوسکے؛لیکن ایک مطلب اس کایہ بھی ہے کہ
معاشرے میں امام کے منصب کااعتراف کرتے ہوئے ان کے اچھے اوراعلیٰ
اخلاق و کردار کواپنایاجائے اوراس سلسلے میں بھی انھیں
اپنا راہنمابنایاجائے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلمپوری زندگی مسجدنبوی کے امام و خطیب رہے اور مسلمانوں
کودی جانے والی تمام تر تعلیمات مسجدوں کے ذریعے ہی
پایہٴ تکمیل کوپہنچتی تھیں۔چاہے معاشرتی
مسائل ہوں یا اللہ کے راستے میں جہادکے لیے نکلنے کی تدبیریں،
چاہے تعلیم و تعلّم ہویادیگرامورسب امام یعنی نبی
پاک صلی اللہ علیہ وسلمکے ذریعے ہی لوگوں تک پہنچتے تھے۔اسی
طرح لوگوں کونمازکے اوقات کی خبر دینااور انھیں دن کے پانچ وقت
کامیابی اور خیر کی طرف بلانابھی نہایت ہی
شرف اور فضیلت والاعمل ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ
وسلمنے امام کے ساتھ ساتھ موٴذنین کے لیے بھی بڑے
اجروثواب کی بشارت دی ہے۔امام ابن تیمیہ نے ایک حدیث
نقل کی ہے کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوئے اورانھوں نے دریافت کیاکہ اللہ کے رسول!مجھے
کوئی کام بتائیں،توآپ صلی
اللہ علیہ وسلمنے فرمایا”اپنی قوم کے امام بن جاوٴ“توانھوں
نے کہا”اگریہ ممکن نہ ہوتو؟“ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”پھرموٴذن
بن جاوٴ“۔(شرح العمدہ)اس حدیثِ پاک سے سیدھے طورپر یہ
معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں
امامت اور موٴذنی ایک اعلیٰ اور شرف والاعمل تھا،اسی
وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ایک صحابی کواس کی تلقین فرمائی۔ایک
دوسری حدیث جسے امام ترمذینے نقل کیاہے،اس میں ہے کہ
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”تین قسم
کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ڈھیرپر ہوں گے:ایک وہ جس نے اللہ کے
اوراپنے غلاموں کے حقوق اداکیے ہوں گے،دوسرا وہ شخص جس نے لوگوں کی
امامت کی اوراس کے مقتدی اس سے خوش رہے اورتیسراوہ شخص جس نے
روزانہ پانچ وقت لوگوں کونمازکی دعوت دی“۔یعنی
جواذان دیاکرتاتھا،اس حدیثِ پاک سے تو اوربھی وضاحت کے ساتھ
معلوم ہوتاہے کہ امامت اور موٴذنی اللہ کے نزدیک موقرعمل ہے اور
دونوں قسم کے لوگوں کے لیے اللہ کی خاص رحمت ومہربانی مقدرہے۔ایک
حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ ”محشرکے دن موٴذنین
کی گردنیں سب سے لمبی ہوں گی“۔یعنی وہ
دوسرے لوگوں کے مقابلے میں نمایاں ہوں گے اوربآسانی پہچانے جاسکیں
گے۔ایک موقع پر فرمایاگیاکہ ”اگر لوگوں کوپہلی صف میں
نماز پڑھنے اور اذان دینے کی فضیلت کاعلم ہوجائے توقرعہ اندازی
کی نوبت آجائے گی“۔اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے خاص طورپرامام اور موٴذن کے لیے رشدومغفرت کی
دعافرمائی ہے۔ (سنن ابوداوٴد)
ایک طرف ائمہ اور موٴذنین
کے بارے میں اتنی فضیلتیں واردہیں، جنہیں جان
کرایک انسا ن کے دل میں حسرت پیداہوتی ہے کہ کاش وہ امام یاموٴذن
ہوتا؛لیکن دوسری جانب جب ہم موجودہ وقت میں اپنے معاشرے کے ائمہ
اور موٴذنین کی صورتِ حال اوران کے ساتھ لوگوں کے رویوں
کامشاہدہ کرتے ہیں تونہایت افسوس اورتکلیف ہوتی ہے
اورپھرعام حالتوں میں کوئی بھی شخص امام یاموٴذن
بننے کاخواب نہیں دیکھتا۔مختلف اسباب کی بناپرآج کل ایسا
ماحول بنادیاگیاہے کہ دوسرے لوگوں کوتوچھوڑیں خودمسلمان اوروہ
بھی باشعور سمجھے جانے والے مسلمان بھی امامت اور موٴذنی
کوحقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں؛حالاں کہ دوسری جانب ایک
ناقابلِ انکارحقیقت یہ ہے کہ پانچ وقتوں اور عیدین کی
نمازوں کے علاوہ بھی پیدائش سے لے کرموت تک ہم ایک امام اورموٴذن
کے محتاج ہوتے ہیں۔ایساباورکیاجاتاہے کہ مساجدکے امام اور
موٴذنین معاشرے پربوجھ ہیں اورپھران کے ساتھ عام طورپراسی
قسم کا برتاوٴ کیا جاتاہے،یقین جانئے ہمارایہ عمل
خود ہماری بدبختی اور اللہ کی ناراضگی کاسبب ہے اوراس سے
خودہمیں ہی دنیاوآخرت میں خسارہ ہوگا۔یہ کس
قدرحیرت اور افسوس کامقام ہے کہ ایک جانب توہم یہ سمجھتے ہیں
کہ امامت اورموٴذنی کرنا معمولی کام،یہ کام کرکے انسان
پرسکون طریقے سے اپنی زندگی نہیں گزارسکتا اوراس میں
اپنی اولاد کولگاناگویاان کی زندگی کوبربادکرناہے؛جبکہ
دوسری جانب جب ہم ہی مسجدکے ٹرسٹی یامتولی بنتے ہیں
توامام یاموٴذن کی تنخواہ پانچ چھ ہزار سے زائد کرنے کے لیے
کسی بھی صورت تیارنہیں ہوتے۔معمولی سے معمولی
شخص بھی جس کامعاشرے میں کوئی وزن نہیں ہوتا،وہ کسی
بھی وقت امام یا موٴذن پر اپناغصہ نکال سکتاہے،کسی بھی
وقت اسے یہ کہہ کرنکال دیاجاسکتاہے کہ آپ ہماری مسجدکے لائق نہیں۔
ہمارا تقاضا ہوتا ہے کہ امام اور موٴذن کوانسان نہیں،فرشتہ ہوناچاہیے؛
مگر خودہم کسی کے ساتھ انسانی اخلاق کے ساتھ بھی پیش نہیں
آتے۔پس اِس وقت مسلمانوں میں بے شمارسماجی اصلاحات کے ساتھ کرنے
کا ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ ائمہ اور موٴذنین کے
تئیں لوگوں کے دلوں میں احترا م اور وقار کاجذبہ پیدا کیاجائے۔
اسلام میں ان کاجومقام و مرتبہ بتایاگیاہے، اس سے لوگوں
کوروشناس کیاجائے اور لوگوں کو مساجدسے جوڑتے ہوئے ائمہ کی مخلصانہ
اقتداکاماحول بنایاجائے۔ہر دورمیں عوام کامساجداور اماموں سے
گہراربط رہاہے،آج بھی عام مسلمانوں کادن رات کاتعلق اپنے اماموں سے ہوتاہے،
اگر عوام اور ائمہ کے مابین تعلقات مضبوط ہوں گے اور دونوں طرف افادہ و
استفادہ کی راہ ہموارہوگی تواس طرح مجموعی طورپرپورے مسلم
معاشرے میں ایک خوشگوارسماجی انقلاب برپا ہوسکتاہے۔ ہمارے
لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں ہم مساجدکی تعمیر
و تزئین میں دل کھول کر خرچ کرتے ہیں اورہرمحلے،بستی اور
شہرکے مسلمان اپنی اپنی استطاعت کے بہ قدریہ کوشش کرتے ہیں
کہ ان کے علاقے کی مسجدوں میں نمازیوں کوہر قسم کی سہولت
دستیاب ہو؛چنانچہ گرمیوں میں اے سی،پنکھوں اور کولر کا
انتظام کیاجاتاہے اور ٹھنڈیوں میں گرم پانی کاانتظام کیاجاتاہے،بہت
ساری مسجدوں میں مخمل اور گدے والے مصلے بھی بچھادیے جاتے
ہیں،توان سب کے ساتھ ساتھ ہمیں اس پر بھی توجہ دینی
چاہیے کہ جوشخص ہمیں پانچ وقتوں کی نمازپڑھاتاہے اورجوہمیں
ان نمازوں کے اوقات کی خبر دیتاہے، ہر طرح کے موسم اور حالات میں
بروقت اذان دیتا ہے،ان کی تنخواہیں بھی بہترکی جائیں،آج
کادورتواتنامہنگاہوگیاہے کہ لاکھوں کمانے والے لوگ بھی پریشان ہی
رہتے ہیں؛لیکن کیامساجدکی تعمیر وتزئین میں
لاکھوں کروڑوں خرچ کرنے والے ہم مسلمان اپنے ائمہ اورموٴذنین کواتنی
تنخواہیں نہیں دے سکتے کہ وہ ایک بہتراور اطمینان بخش
زندگی گزارسکیں؟اس سلسلے میں مساجدکے متولیان اور ٹرسٹیان
کوخصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایک
گزارش ائمہٴ کرام سے بھی ہے کہ وہ معاشرے میں اپنے مقام و مرتبے
سے باخبررہیں،وہ صرف نمازوں کے امام نہیں ہیں؛ بلکہ ان کے
اعمال، اخلاق اور کردار کااثردوسرے لوگوں پر بھی پڑتا ہے۔ آپ کوئی
ایساعمل نہ کریں جوآپ کی شان اور مرتبے کے خلاف ہو،صرف
نمازپڑھادیناہی آپ کی ذمے داری نہیں ہے؛ بلکہ لوگوں
کے اعمال و عقائد کی اصلاح کاذمہ بھی شریعت نے آپ کے اوپر
رکھاہے۔مسلمانوں کی اخلاقی و عملی بے کرداری کے
خاتمے میں ائمہٴ کرام اہم کرداراداکرسکتے ہیں اوران سے یہ
مطلوب بھی ہے۔یہ حقیقت ہر وقت ذہن میں رہنی
چاہیے کہ جومنصب یامقام جتنااہم اور عظیم ہوتا ہے، اس کی
ذمے داریاں بھی اسی قدراہم ہوتی ہیں۔جہاںآ پ
کے اچھے اور عمدہ اخلاق و اعمال معاشرے پراچھے اثرات مرتب کرتے ہیں،وہیں
آپ کی معمولی لغزش بھی بے شمارلوگوں کے لیے فساداور برائی
کاسبب بن جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ”امام ضامن ہوتا ہے“۔ مطلب یہ
کہ امام نہ صرف اپنے مقتدیوں کی نمازوں کاضامن ہے اوراس کی
نمازکی صحت پر مقتدیوں کی نمازوں کی درستگی موقوف
ہے؛بلکہ اس کامطلب یہ بھی ہے کہ اپنی عملی زندگی میں
بھی امام اپنے مقتدیوں کاضامن ہے،اگرکوئی اس کے اچھے اخلاق و
اعمال سے متاثرہوکراچھے راستے کواپناتاہے تواس بندے کے ساتھ امام بھی ماجور
ہوگا؛ جبکہ اگرکوئی شخص اس کی غلط نقل و حرکت کی وجہ سے دین
اور مسجدسے متنفرہوجاتاہے تواس کابھی ذمے داروہی ہوگا۔بہرکیف
یہ بے حد ضروری ہے کہ ائمہ اور مقتدی دونوں اپنے اپنے مطلوبہ
کرداروں کواداکریں،یہ عمل ہمارے معاشرتی نظام کو بہتری کی
طرف لے جانے میں کلیدی رول ادا کر سکتا ہے۔
$$$
---------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد:101 ، جمادی
الاخری 1438 ہجری مطابق
مارچ 2017ء